روزانہ ایک جیسے کام کرنے سے اکتاہٹ طاری ہوجاتی ہے‘ ہمیں اپنی زندگیوں میں تبدیلیاں اور دلچسپیاں پیدا کرنا چاہئیں اور نئی اشیاء کا تجربہ کرنا چاہئے روز مرہ یا چھٹی کے دن کے معمولات کو تبدیل کیجئے۔ کچھ نیا کام کریں جس سے طبیعت کی اکتاہٹ ختم ہوسکے۔
ہماری تھوڑی سی توجہ سے زندگی گل رنگ بن سکتی ہے آتی جاتی سانسوں کا نام زندگی ہے‘ مگر یہی زندگی قدرت کا وہ انمول تحفہ بھی ہے جس سے کائنات کے تمام رنگ‘ ڈھنگ اور انداز وابستہ ہیں۔ بے مقصد جئے جانے کا نام زندگی نہیں۔ زندگی اتار چڑھائو‘ نشیب و فراز دیکھتے ہوئے گزار دی جاتی ہے‘ خوشی کے حصول میں ہر فرد کو روزانہ دیگر احساسات مثلاً غم و غصہ اور جھنجھلاہٹ وغیرہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بڑوں کا کہنا ہے کہ ہر حال میں جئے جانا ہی زندگی ہے۔ اپنے حال میں خوش اور مگن رہئے‘ جہاں تک ہوسکے زندگی کے لطف اٹھائیے اور مزے کیجئے۔ ’’جہاں تک ہوسکے‘‘ کا مقصد صرف یہ و اضح کرنا ہے کہ کوئی بھی بشر ہر لحظہ خوش نہیں رہ سکتا۔ خوشی کو کمایا جاتا ہے‘ اس کے ساتھ رہا جاتا ہے اور پھر اس پر مالک حقیقی کا شکر ادا کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ قنوطی ہوتے ہیں جو زمانہ کیا کہے گا اور کیا ہوگا؟ جیسے جذبات کا مسلسل سامنا کرتے ہیں‘ ان کیلئے کچھ باتیں یاد رکھنا ضروری ہیں تاکہ انہیں بھی زندگی کی اصل خوشی اور خوبصورتی حاصل ہوسکے۔ انداز فکر تبدیل کریں: سیانوں کا کہنا ہے کہ ایسے جیو جیسے آج تمہارا آخری دن ہے‘ دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جنہیں کسی حادثے سے دوچار ہونا پڑا ہو‘ کسی اپنے کی جدائی کا صدمہ اٹھانا پڑا ہو یا کسی خطرناک بیماری سے نجات ملی ہو‘ ایسے تمام لوگوں کے سوچنے کا انداز بالکل مختلف ہوتا ہے۔ ایسے لوگ زندگی کی قدر کرتے ہیں اور کوئی کام کل پر نہیں چھوڑتے۔ وہ دنیا بھر کی سیر کرتے ہیں‘ نئی نئی مہارتیں حاصل کرتے ہیں‘ ان کی لغت میں ’’کل‘‘ کا لفظ نہیں ہوتا۔ ڈائری لکھنے کی عادت ڈالئے: ایک کاپی یا ڈائری رکھئے جس میں آپ دن بھر کی روداد لکھ سکیں۔ بچوں کی کہی ہوئی کوئی معصوم بات‘ کسی دوست کا کوئی چٹکلا‘ کچھ باتیں جو یادیں بن جاتی ہیں اور سالوں کے گرد میں کھوجاتی ہیں‘ ڈائری میں لکھنے سے یہ محفوظ ہوجاتے ہیں‘ یہی نہیں لکھنے کے اور بھی بے شمار فوائد ہیں۔ خیالات‘ مسائل یا اہم باتیں اگر لکھ لی جائیں تو ان پر بہتر انداز میں غوروغوض کیا جاسکتا ہے۔ اپنا نقطہ واضح رکھئے: یہ حقیقت ہے کہ ہم سے ہر فرد اچھے لفظوں سے یاد رکھے اور پکارے جانے کا متمنی ہوتا ہے‘ سب ہی کی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں پیٹھ پیچھے بھی اچھی کردار اور گفتار کا حامل سمجھا جائے۔ اگر ہم یہ سوچ رکھتے ہیں تو ہمیں چاہئے کہ ہم ہر معاملے پر اپناواضح اور شفاف نکتہ نظر رکھیں‘ اس اصول پر کاربند رہیں اور اپنی جذباتی توانائی کو ضائع نہ کریں۔ زندگی کی چھوٹی چھوٹی اور فضول باتوں کو دل کا روگ نہ بنائیے۔ مثلاً اگر بس میں کسی خاتون نے آپ کے پیر پر سینڈل رکھ دیا اور پھر معذرت بھی کرلی تو آپ بھی ان کی اس غلطی کو مسکراکر معاف کردیجئے اور بھول جائیں۔ غلطی انسان ہی سے ہوتی ہے‘ اس طرح کے چھوٹے چھوٹے واقعات پر جی جلانے اور اپنی جذباتی توانائی کو فضول میں ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ بس یہ جان لیں کہ زندگی کا یہ معمول ہے اور خندہ پیشانی سے ان حالات کا سامنا کرنا چاہئے۔ آج کا کام کل پر نہ چھوڑیں: ایسے بہت سے کام جو ناپسندیدہ یا دشوار ہوں اور ان کا کیا جانا ضروری بھی ہو‘ انہیں کل پر نہ ٹالئے‘ ناخوشگواری اور تاخیر سے ذہن پر بوجھ پڑتا ہے‘ اگر کسی کام کے بارے میں فکر ہوتو اس کا سامنا کرکے مسئلے کو حل کرنا ہی بہترین حل ہے۔ لگے بندھے معمولات زندگی میں تبدیلی لائیے: روزانہ ایک جیسے کام کرنے سے اکتاہٹ طاری ہوجاتی ہے‘ ہمیں اپنی زندگیوں میں تبدیلیاں اور دلچسپیاں پیدا کرنا چاہئیں اور نئی اشیاء کا تجربہ کرنا چاہئے روز مرہ یا چھٹی کے دن کے معمولات کو تبدیل کیجئے۔ کچھ نیا کام کریں جس سے طبیعت کی اکتاہٹ ختم ہوسکے۔ زندگی ایک ہی ڈگر پر چلتی رہے تو یکسانیت لطف نہیں دیتی اور جھنجھلاہٹ طاری ہونے لگتی ہے۔ لہٰذا خوش رہنے کیلئے زندگی کے لگے بندھے معمولات میں بھی تبدیلی ضروری ہے۔ حسد نہ کیجئے: آپ کی پڑوسن کا گھر آپ کے گھر سے اچھا ہے اس کے گھر کے کمرے میں اے سی ہے‘ یا برانڈ نیو کار۔ آپ کو ان تمام چیزوں سے کیا لینا دینا‘ ذرا یہ بھی تو دیکھیں کہ اس کا شوہر چھٹی کے دن بھی کولہو کا بیل بنا اوور ٹائم کرتا ہے اور آپ کے شوہر کی طرح کہیں گھمانے پھرانے نہیں لے جاتا۔ آپ خود بتائے کون بہتر ہے؟ آپ یا آپ کی پڑوسن؟ لہٰذا کسی سے حسد نہ کریں بلکہ اپنے وسائل اپنے معمولات اور اپنی زندگی کو بہتر انداز میں گزارنے پر توجہ دیں اور جو کچھ خدا نے دیا ہے اس پر خدا کا شکر ادا کریں۔ مزاج کے خلاف اقرار یا انکار نہ کریں: ہر کام کیلئے قرار ضروری نہیں۔ زندگی بہت مصروف ہے‘ دوسروں کیلئے جینا بلاشبہ اچھی بات ہے مگر آپ کی زندگی
پر آپ کا بھی پورا اختیار ہے۔ لہٰذا ایسے کام نہ کریں جنہیں آپ دل سے پسند نہیں کرتیں اور انہیں تبدیل کرنے کا فیصلہ خود آپ کے ہاتھوں میں ہے تو پھر بہتر ہے کہ ایسا کام یا وعدہ نہ کیا جائے جو آپ کی مرضی کے خلاف ہو لہٰذا آپ اپنے مزاج کے مطابق اقرار یاانکار کرنا سیکھیں۔ شریک حیات سے محبت کریں: شادی کے اولین سالوں میں محبت کا دریا ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی مانند دکھائی دیتا ہے۔ میاں بیوی باہمی رفاقت نبھانے اور ہر دکھ سکھ ساتھ مل کر جھیلنے کے وعدے کرتے ہیں‘ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مصروفیات اور غم روزگار آپس میں مل بیٹھنے تک کے مواقع فراہم نہیں کرتے۔ لیکن پر لطف زندگی گزارنے کیلئے ضروری ہے کہ شریک حیات سے بے لوث محبت کریں اور ایک دوسرے کی تکالیف اور خوشیوں کو شیئر کریں۔تعریف کریں: اپنے ساتھیوں‘ دوستوں گھر والوں کو بور کرائیے کہ آپ ان سے محبت کرتے ہیں ان کے اچھے کاموں پر تعریفی کلمات ان کا حق ہیں لہٰذا آپ اپنے ساتھیوں‘ اہل خانہ کے اچھے کاموں پر ان کی برملا تعریف کریں‘ اس سے گھر کے ماحول پر خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ کیا آپ اچھے/ اچھی غمگسار ہیں؟: دوسروں کے دکھ درد بانٹنا بظاہر بہت مشکل لگتا ہے‘ کسی کو تکلیف میں دیکھ کر اگرچہ ہمیں بہت رنج محسوس ہوتا ہے مگر بعض مرتبہ زبان دل کا ساتھ نہیں دے پاتی۔ آپ اپنے رویہ سے لوگوں کے دکھ درد بانٹنے کی کوشش کریں۔ ان کے آنسو صاف کریں یاد رہے کہ روتی آنکھ کے آنسو پونچھنا بہت ثواب ہے۔ رابطے مت توڑیے: فون‘ خط‘ ای میل‘ یہ سب رابطے کے ذریعے ہیں۔ کسی پرانے وقتوں کے دوست یا دورپار کے عزیزوں سے رابطہ میں رہئے تاکہ اچھی یادیں پھر سے تازہ کی جاسکیں۔ اگر کسی دوست احباب کے ای میلز یا میسجز وغیرہ ملیں تو کوشش کریں کہ اس کا جواب جلد از جلد دے سکیں۔ اپنا موڈ بہتر بنائیے: تازہ پھول‘ بھیگی گھاس پر چلنا‘ یہ سب مزاج پر خوشگوار اثر ڈالتے ہیں‘ گھر میں اگر لان نہیں ہے یا جگہ کم ہے تو پھولوں کے گملوں وغیرہ سے گھر کو سرسبز بنائیے۔ علاوہ ازیں سمندر کا نظارا‘ ٹھنڈی بھیگی ہوا‘ لہریں اور ریت پر ننگے پائوں چلنا یہ سب بہت لطف دیا ہے۔ روح کی تازگی کا اس سے اچھا کوئی اور سامان نہیں‘ کوشش کیجئے کہ ہفتہ پندرہ دن میں کچھ وقت خود کو بھی دے سکیں۔ تخلیقی کاموں پر توجہ دیں: سلائی‘ کڑھائی‘ بنائی‘ پکوان‘ گھریلو عورتوں کیلئے یہ روزمرہ کے کام ہیں۔ اگر آپ کے پاس وقت ہے تو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں اس طرح کے کاموں میں نہ صرف آپ کا فارغ وقت بہترین انداز میں کٹ سکتا ہے بلکہ اس طرح آپ کچھ پیسے بھی کماسکتی ہیں۔
دعوت دیں: عزیزواقارب‘ دوستوں کو دعوت دیں‘ اپنے ہاتھ سے کچھ پکاکر کھلائیں‘ مہمان نوازی ویسے بھی سنت رسول اللہﷺ ہے۔ دعوت کی تیاری میں آپ کو بہت مزہ آئے گا اور اچھے مہمانوں سے مل کر تیاری کی تھکن اترجائے گی۔ مہمانوں اور عزیز و اقارب سے ملاقات ہر وقت مسکراتے رہئے۔ مسکرانے میں پیسے خرچ نہیں کرنا پڑتے لیکن اس سے چہرے کا تنائو ختم ہوجاتا ہے اور اس سے مقابل پر آپ کی شخصیت کا خوشگوار تاثر قائم ہوتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں